29 اپریل 2024 - 13:15
واٹس ایپ اور فیس بک سمیت میٹا کمپنی سے وابستہ پلیٹ فارمز فلسطینیوں کے قتل میں شریک

میٹا کمپنی سے وابستہ مغربی پلیٹ فارمز ـ واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام ـ اسرائیلی ریاست کو فلسطینیوں کی معلومات فراہم کرتے ہیں اور غاصب ریاست ان پر قاتلانہ حملے اور بمباری کرتی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، مغربی انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی مغربی افواج اور اسلحہ ساز کمپنیوں کی طرح فلسطینی عوام کے قتل عام میں برابر کی شریک ہے۔

دنیا مصنوعی ذہانت کے ساتھ، ٹیکنالوجی کے نئے دور میں داخل ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں صنعتوں کو بھی ترقی ملی ہے اور بدقسمتی سے مصنوعی ذہانت عالمی نظام میں، فیصلہ کن جنگوں میں بھی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

روزنامہ “ایران” نے لکھا:

امریکہ مصنوعی ذہانت میں پیش پیش ہونے کے ساتھ ساتھ غزہ کے عوام کے خلاف صہیونیوں کے جرائم میں برابر کا شریک ہے اور صہیونیوں کو اسلحہ اور مختلف قسم کے وسائل فراہم کرتا ہے اور یوں یہ ٹیکنالوجی غیر انسانی مقاصد کے لئے قاتل صہیونی فوج کی خدمت کررہی ہے، اور حماس کے مجاہدین سمیت کسی بھی مطلوبہ شخص یا خاندان کی معلومات صہیونی فوجیوں کو فراہم کرتی ہے۔

سب کو سوشل نیٹ ورکس اور گوگل جیسے تشہیراتی ویب گاہوں تک رسائی حاصل ہے، اور گوگل مصنوعی ذہانت کی مدد سے اپنے صارفین کی معلومات کو اکٹھا کرکے صہیونی ریاست کے حوالے کرتا رہا ہے۔

گوگل اور میٹا اسرائیلی ریاست کے جرائم میں شریک

کچھ فاش ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیس بک (Facebook)، واٹس ایپ (WhatsApp) اور انسٹاگرام (Instagram) کی مالک کمپنی میٹا پلیٹ فارمز (Meta Platforms, Inc) فلسطینی افراد اور خاندانوں کو نشانہ بنانے کے لئے خاندانی گروپوں سے متعلق معلومات صہیونی فوج کو فراہم کرتی ہے۔ صہیونی ریاست نے لیوینڈر (Lavender) سے لیس آلات کے ذریعے غزہ میں فلسطینیوں کی شناخت کرتی ہے اور پھر انہیں بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بناتی ہے۔ یہ جنگ کے لئے تیار کردہ وہ مصنوعی ذہانت ہے جس نے 37,000 فلسطینیوں کو حماس کے مشتبہ کارکنوں کے طور پر نشان زد کیا ہے اور ان کی نگرانی کر رہی ہے۔ صہیونی فوجی اور انٹیلی جنس ذرائع نے اعتراف کیا کہ وہ فلسطینیوں کو گھریلوں بیٹھکوں کے دوران نشانہ بناتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گھریلوں بیٹھکوں میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہوتی ہے!

نیز گوگل اور صہیونی ریاست کے درمیان نمبس پراجیکٹ (Project Nimbus) کے تحت ایک معاہدہ منعقد ہؤا ہے جس کی رو سے صہیونی ریاست اور اس کے کارندے دنیا بھر میں بے شمار انسانوں کی معلومات تک رسائی رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، گوکل جیسی کمپنیوں کے ساتھ صہیونیوں کے قریبی تعلق کی بنا پر، صہیونی ریاست عظیم معلومات حاصل کر سکتی ہے اور ان معلومات سے فلسطینی قوم سمیت کسی بھی شخص کو نشانہ بنا سکتی ہے اور ان کی جاسوسی کر سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست ان ٹیکنالوجیوں ـ بالخصوص جاسوسی کے سافٹ ویئرز ـ کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف بروئے کار لاتی ہے اور فلسطینیوں پر ان کا تجربہ کرتی ہے اور پھر ان کے نقائص دور کرتی ہے اور یہی سافٹ ویئرز دوسروں کو فروخت کرتی ہے۔

آزآدی اظہار کا گوگل اسٹائل

گوگل نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اپنے تقریبا 70 کارکنوں کو ـ صہیونیوں کے ساتھ نمبس نامی معاہدے پر احتجاج اور نیویارک، سنیویل، (Sunnyvale) کیلیفورنیا میں احتجاجی دھرنا دیا تھا، ـ برخاست کر دیا۔ گوگل کے کارکن گوگل اور اسرائیل کے درمیان کلاؤڈ کمپیوٹنگ معاہدے پر احتجاب کر رہے ہیں۔ یہ کارکن (No Tech for Apartheid) نامی گروہ کا حصہ ہیں جو سنہ 2021ع‍ سے گوگل اور اسرائیل کے مابین ٹیکنالوجی کی فروخت پر تنقید کرتے ہیں، اسرائیل کو خطوط لکھتے ہیں اور احتجاجی جلسے منعقد کرتے ہیں۔ طوفان الاقصی کے بعد صہیونیوں کے جرائم میں شدت آئی تو اس گروہ کے احتجاج میں بھی شدت آئی، کیونکہ مذکورہ معاہدہ فلسطینیوں پر غاصب ریاست کی نگرانی کو توسیع دیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوجاتے ہیں۔

سی این این کے مطابق، مظاہرہ کرنے اور دھرنا دینے والے کارکنوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے نیویارک اور سنیویل کے گوگل کے دفاتر میں، احتجاج کرنے والے بعض کارکنوں کی برخاستگی کے وقت، وہ صرف تماشائی تھے اور احتجاجی اقدامات میں شامل نہیں تھے۔ مذکورہ کارکنوں نے اس اقدام کو جارحانہ اقدام قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔

بیان میں کہا گیا ہے: گوگل احتجاجی کارکنوں کی طاقت سے غضب ناک ہے، اور اپنے اقدام سے خجلت زدہ ہے۔ ہم گوگل میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا عہد کرتے ہیں اور کمپنی کے منتظمین کو یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ “ہم جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے اور پسپا نہیں ہونگے”۔

گوگل کے ترجمان نے برخاست شدہ افراد کی تعداد بتائے بغیر، متعدد کارکنوں کی برخاستگی کی تصدیق کی ہے۔

ادھر غاصب صہیونی ریاست کے جرائم اور غزہ میں غیر فوجی فلسطینیوں کے قتل عام نے امریکی رائے عامہ کو صدمہ پہنچایا ہے اور امریکی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں میں احتجاجی اقدامات میں شدت آئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔

110